top of page

نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی ذہنی پریشانیاں اور معاشرتی بے پروائی

Updated: Aug 13, 2020




آج جب میں نے اپنی بیٹی کو اس کے کالج سے لیا تو وہ بہت خاموش اور پریشان نظر آرہی تھی۔ میں نے سوچاامتحانات کی وجہ سے تھکاوٹ ہو گئی ہو گی۔ لیکن اس کی خاموشی کچھ زیادہ ہی گمبھیر تھی۔ کیمبرج سے بیڈ فورڈ کا راستہہم دونوں کے لیے بہت طویل محسوس ہونے لگا، حلانکہ پچھلے ایک سال سے یہ کوئی 33 میل کا راستہ یا پھر یوں کہیں کہڈیڑھ دو گھنٹوں کی مسافت ہم دونوں کے لیے بڑی خوش گوار ہوا کرتی تھی۔ ہم سارا راستہ جاپانی اور کورین بینڈز کیموسیقی سنتے، اور ڈھیروں باتیں کرتے جن میں اس کی کلاس میں ہونے والے واقعات سے لے کر نئے دوستوں کی باتیںاور کالج کے اساتذہ کے قصے بھی شامل ہوتے تھے۔

مجھے اپنی بیٹی سے اکیلے میں باتیں کرنے کا یہ موقع بہت پسند تھا۔ ہر دن تین سے چار گھنٹے ساتھ سفر کرتے ہوئے جہاںمجھے میری بیٹی کے اور قریب آنے کا موقع ملا، وہاں مجھے اس کے دوستوں کے بارے میں بھی مزید معلومات حاصلہونے لگی تھیں، جو ایک ماں ہونے کے ناتے سے اکثر بہت کار آمد ثابت ہوتی ہے کہ آپ کے بچوں کی جن دوسرےبچوں سے دوستی ہیں وہ کس طرح کے بچے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی اپنی بیٹی کے خیالات اور نظریات جان کر بڑی حیرتہوتی اور کبھی کبھی اس کی باتیں مجھے گھر کے باہر کی دنیا کی ایک ایسی جھلک دکھلاتی جو اس سے پہلے میری آنکھوں سےاوجھل تھی۔

میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ پہلے پہل میری بیٹی مجھ سے بات کرتے ہوے بہت محتاط اور تذبذب کا شکار تھی۔ وہبولنے سے پہلے سوچتی اور پھر میرے تاثرات پڑھنے کی کوشش کرتی کہ کہیں مجھے برا تو نہیں لگا؟ پھر دھیرے دھیرے اسکا اعتماد بحال ہونے لگا اور اب وہ ہر موضوع پر کھل کر مجھ سے بات کرنے لگی تھی۔ پہلے پہل مجھے بھی اس کی کئیباتوں پر اعتراض ہوتا اور پھر میں نے یہ محسوس کیا کہ میں جس بات پر اعتراض کرتی میری بیٹی ایسی بات کو چھپا لیتی اوراگر غلطی سے کبھی اس کی زبان سی کچھ ایسا نکل جاتا تو وہ دیر تک اس کی وضاحتیں کرتی رہتی۔


پیپارس کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر اجتماعی طور پر کوشش کی جائے اور شعور اجاگر کیا جائے توبہت سے نوجوانوں کو ایسا کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔

سمارٹین ایک ایسی آرگنائزیشن ہے جو لوگوں میں تن تنہائی یا اکیلا پن کی کیفیت، جو اکثر خود کشی کی طرف رغبت پیدا کرتیہے، کو دور کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ سمارٹین کا کہنا ہے کہ ہر پانچواں انسان کبھی نا کبھی اپنی زندگی میں خود کشیکرنے کے متعلق ضرور سوچتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے لوگوں کی باتوں کو دھیان سے سنیں، جو مایوس نظر آتےہوں، یا پھر خود کشی کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ اس موضوع پر بات کر کے اپنا ارادہ بدلنا چاہتےہوں یا پھر کسی قسم کی مدد کے طلب گار ہوں۔

اگر اپ کے ارد گرد یا پھر حلقہ احباب میں کوئی ایسا فرد ہے، جسے زندگی میں کوئی دل کشی نظر نہیں آتی۔ یا پھر مسلسلمشکلات کا شکار ہو، تو خدارا اسے نظر انداز نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اسے آپ کی ضرورت ہو اور اپ ایک زندگی بچانےمیں کامیاب ہو جائیں۔


خاموشی کی نشستیں: یونیورسٹی مینٹل ہیلتھ ڈے پر شعور اجاگر کرنے کے لیے، 95 گریجویشن گاؤن خالی نشستوں پر ان تمام یونیورسٹی طالب علموں کی نشان دہی کر رہے ہیں جو ہر سال خود کشی کرتے ہیں۔ (فوٹو کرٹسی پیپارس چیریٹی یو کے)




13 views0 comments

Comments


bottom of page